شیعہ ہزارہ بچی کی گڑیا اور کچھ اور تصویروں سے بنی تحریر ۔۔ عامر حسینی

doll

صاحبو!یہ تصویروں کا ایک ڈھیر میرے سامنے ہے-یہ تصویریں کسی شادی پر یا دوستوں کی محفل کے دوران یاد گار لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیے جانے کی روداد نہیں سناتیں-نہ ہی یہ کسی داستان محبت کی کہانی بیان کرتی ہیں-بلکہ یہ ساری تصویریں کیرانی روڈ پر ایک ہزار کلو گرام بارود اور راکٹ و گولیوں کی زد میں آنے والے شہداء کی ہیں

ہر تصویر ایک کہانی ہے،ایک المیہ ہے،اور ایک طمانچہ ہے-میں ان تصویروں کو بار بار دیکھتا ہوں اور دل پر چھریاں چلنے لگتی ہیں-یقین نہیں آتا کہ اس طرح کی بربریت ایک حقیقت ہے جو ستاسی لوگوں کی جانیں لے گئی ہے-اور 170 سے زیادہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے معذور کر گئی ہے-لیکن ان میں تین تصویریں ایسی ہیں جن کو دیکھنے کا پہلے تو حوصلہ نہیں ہوتا اور حوصلہ اگر ہو بھی تو ایک نظر ڈالنے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے-ایک تصویر میں کسی وجود کا منظر تو نہیں ہے مگر بہت چھوٹے چھوٹے ،ننھے منے سے جوتے پڑے ہوئے ہیں-پاس ہی ایک گڑیا  پڑی ہے اور خون کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ہے –اور ایک کپڑے کے چیتھڑے ہیں-بس زرا اپنے تخیل کو آواز دے کر باقی کہانی اس تصویر کی خود مکمل کرلجیے گا-زرا سوچیے کہ وہ کون معصوم بچی تھی جو اپنی گڑیا لیکر کیرانی روڈ پر کسی گھر کے اندر یا گھر کے باہر کھیل رہی ہوگی-اور بارود کی بارش نے اس کو گھیر لیا ہوگا-اور وہ اس بارش میں گوشت کے لوتھڑوں میں بدل گئی ہوگی-اب حادثے کی جگہ پر فقط اس کی گڑیا پڑی ہے اور اس پری کے جوتے اور اس کے کپڑوں کی باقیات ہے

ایک اور دل دھلانے والی تصویر ہے-ایک بچہ جو مشکل سے میرے بیٹے عاشور حسین کی عمر کا ہوگا-جس کے منہ میں چوسنی ہے-اور وہ ایک پرام میں بیٹھا ہوا ہے-اور اس کا سارا چہرہ خون میں لتھڑا ہوا ہے-بچے کے گالوں کی سرخی میں یہ لہو کا رنگ الگ سے ہی دکھائی دے رہی ہے-اور بہت زیادہ تکلیف میں لگ رہا ہے-اور ایک اور تصویر ہے جو دوبارہ دیکھنے کی مجھ میں تو ہمت نہیں ہے-مگر اب آنکھیں بند بھی کرتا ہوں تو دماغ میں جیسے وہ نقش ہوگئی ہے-کیرانی روڈ پر عین سڑک کے درمیان ایک معصوم تین سال کا بچہ ہے جو زخمی ہے-اور لہو لہو ہے مگر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کا ایک پیر الگ ہوکر بس اس سے زرا فاصلے پر پڑا ہے-اور اس بچے کے چہرے پر جو تاثرات نقش ہوکر رہ گئے ہیں وہ اس کی تکلیف اور بے بسی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں-مجھے لگا کہ یہ میرا شاوی (میرا بیٹا شاویز نقی)ہے اور مجھ سے سوال کررہا ہے کہ “بابا!یہ کیا ہوا ہے مجھے،میں چل کیوں نہیں پارہا”میں یہ سب تصور کرکے کانپ، کانپ جاتا ہوں-اور بار بار رات کے اس پہر میں اپنے پاس لیٹے ہوئے عاشور اور شاوی کی طرف دیکھ لیتا ہوں اور ان کو سینے سے لگاتا ہوں اور ان کی بلائیں لیتا ہوں-مگر یہ تین تصویریں ہیں کہ میری نظر سے ہٹ ہی نہیں پارہی ہیں-سوچتا ہوں جن کے یہ شیر خوار بچے ہوں گے ان پر کیا گزررہی ہوگی-ایک ہسپتال کا منظر ہے-ایک نرس،ایک لیڈی ڈاکٹر اور ایک اور شخص جس کے چہرے پر بے پناہ وحشت ہے اور وہ ایک لاش کے چہرے سے چادر اٹھا کر دیکھ رہا ہے-میں خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں-پاگلوں کی طرح کتنے بھائی ،بہنیں اور مائیں،بیویاں ہسپتالوں میں فرش پر پڑی ہوئی لاشوں کے منہ کھول ،کھول کر دیکھتی ہوں گی-اور ان کے دل پر کیا گذرتی ہوگی

میرا ایک مرتبہ ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا تو میری ماں چوکھٹ سے لگ کر بیٹھ گئی تھی-اور وہ ایک ماں تک آدھی سوتی آدھی جاگتی تھی-زرا سا کٹھکا ہوتا اور وہ جاگ جاتی اور کہتی بیٹا کسی شے کی ضروت تو نہیں-تم مت ہلنا تکلیف ہوگی-اور زرا سوچ لیں کہ اپنے پیاروں کی تلاش لاشوں میں کرنا کس قدر دل گردے کا کام ہوگا-سوچتا ہوں تو ایک مرتبہ تو دل میں خیال آتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ گوتم کی طرح سنیاس لے لوں-جہاں ایسے مناظر تو میرا پیچھا نہیں کریں گے-میرے دادا اور دادی نے 1947 کے سال میں ہندوستان سے پاکستان آتے ہوئے اپنی شیر خوار بچی کو میری اکلوتی پھوپھی کو پیاس کی شدت سے دم توڑتے دیکھا تھا تو وہ ساری عمر اس کا سوگ مناتے رہے اور عید کے دن ان کی سسکیوں سے سارا گھر سوگوار رہتا تھا-میرے نانا بھی اپنے سارے گھرانے سے محروم ہوگئے تھے-اکثر جب کبھی بخار میں سرسامی کیفیت ہوتی تو ان کا گریہ دیکھا نہیں جاتا تھا-وہ کہتے تھے “مولا حسین !پھر میری تو کیا کسی کی اولاد کو تقسیم اور نفرت کی آگ سے نہ گزرنا پڑے۔۔۔یہ دعا کردئجیے”امام الساجدین والعابدین ” علی بن حسین کو ان کے بیٹے باقر بن علی نے کبھی ہنستے نہیں دیکھا تھا-اور وہ کثرت سے گریہ کرتے تھے-اس کا سبب باقر نے پوچھا تو کہا “بیٹے جو میں نے کربلاء میں دیکھا تم بھی دیکھتے تو کبھی نہ ہنستے”میں اکثر حیران ہوتا تھا کہ یورپ اور روس والے دوسری عالمی جنگ پر بہت بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور وہ سب جنگوں سے بہت نفرت کرتے ہیں-کیوں؟آج جن مناظر کو دیکھا ہے تو سمجھ آگئی-اور ان کے شعور میں نفرت سے پھیلی تباہی کی تاریخ محفوظ ہے اور جنگ کا تجربہ ان کی نفسیات میں جاں گزیں ہے-وہ اس لیس اس سے نفرت کرتے ہیں-کوئٹہ میں علمدار روڈ اور کیرانی روڈ پر بسے لوگ آگ اور خون کے سمندر میں تنہا کھڑے ہیں-ان کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے-خدا کی پناہ ایک ہزار کلو گرام بارود کی بارش ان پر برسادی گئی-اور پھر راکٹ اور گولیوں کی بارش ہوئی-اس قیامت کا نشانہ عورتیں،معصوم شیر خوار بچے،اپنی گڑیا سے کھیلتی ننھی پریاں اس بارش کی زد میں آگئیں

آج کا کالم ان پریوں اور ننھے فرشتوں کے نام ہے-اور کیا ابھی بھی لوگوں کے ضمیر جاگنے کا وقت نہیں آیا؟اے پاکستان کے شہریوں تمہیں خبر ہے کہ بحرین میں ایک سترہ سالہ لڑکا سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوا تو وہاں دارالحکومت میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ احتجاج سامنے آیا-لیکن یہاں تو ایسا کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا-کس چیز کا انتظار ہورہا ہے؟کیا یہ آگ جب اپنی منڈلی پر برسنے لگے گی تو پھر ہوش آنا ہے-اس ملک میں دھشت گردی کی اس کالی رات کو برسنے والی بارش کا برسنا بند اس وقت ہوگا جب اس ملک میں سنی اور شیعہ آبادی ملکر اس طاعون میں مبتلاء ہونے سے بچ سکتی ہے-ورنہ پھر وہی ہوگا کہ دھشت گرد ایک ،ایک کرکے سب کو مار ڈالیں گے-اور اس سماج میں یہ ہوگا کہ یہ دوسرا عراق اور شام بن جائے گا-جہاں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں-اور وہاں صحت،تعلیم اور دیگر شعبوں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا-اور یہ ملک پتھر کے دور میں واپس جانے کی تیاری کررہے ہیں-شام کی آدھے سے زیادہ آبادی اب دوسرے ملکوں کی سرحدوں کے پاس مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کررہے ہیں-سول وار ایک وباء سے کم نہیں ہوتی ہے-اور یہ سب کو اپنی دائرے میں داخل کرلیتی ہے-اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا اور سب سے زیادہ گھاؤ بھی غیر جانبدار رہنے والوں کو لگتے ہیں

ہمیں نفرت اور جنگ کے داعیوں کے مقابلے میں امن کی طاقتور آوازوں کو سامنے لانا ہوگا-اور اس امن کا مطلب وہ امن نہیں ہوگا جو پاکستان ،افغانستان اور سارے مشرق وسط میں سامراجی پیسے وصول کرنے والے ادارے کررہے ہیں-بلکہ یہ عوام کی سطح پر بننے والا امن محاز ہوگا-اور یہی فرنٹ اس سماج میں تکفیر کے مردے فتوؤں کے بطن سے نمودار ہونے والی خوں آشامی کو بند کرسکتا ہے-ہم نے کہیں بھی نہیں جانا-یہیں رہنا ہے-اور یہ دھرتی جنت ہوگی تو سکھ و شانتی میں ہمارا حصّہ ہوگا-اور اگر جہنم ہوگی تو اس کی آگ میں جلنا ہمارا مقدر ہوگا-حسن طوری جو پارا چنار کے نام سے ایک بلاگ لکھتا ہے اور وہ پارا چنارکا رہنے والا  ہے کہتا ہے جب تک پارا چنار کے رہنے والوں نے متحد ہوکر کالی دھشت کی بدروح کا مقابلہ شروع نہ کیا تو ان کا خون پانی کی طرح بہتا رہا –وہ جگ بیتی نہیں آب بیتی سنارہا ہے

اور میں جب اس کالم کی آخری سطریں لکھنے جارہا تو کربلائے کوئٹہ کے نام سے بنے ایک فیس بک پیج پر کیرانی روڈ پر بم بلاسٹ میں شہید ہونے والے “یاسر”کی والدہ کی تقریر کا متن چھپا ہے-وہ یہ تقریر اس جگہ پر کررہی تھی جہاں اکیاسی جنازے پڑے ہیں اور ان میں اس کے لخت جگر “یاسر “کا جنازہ بھی ہے-اس ماں کا حوصلہ تو دیکھو!کہتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی بہادروں کی طرح شہادت پر فخر کرتی ہے اور اس کے بیٹے نے بزدل قاتلوں کو شکست دے دی-یہ یاسر وہ ہے جو راکٹوں اور گولیوں کی بارش میں ڈر کر بھاگا نہیں ڈٹا رہا اور لوگوں کی جان بچاتا ہوا شہید ہوگیا-یاسر کی والدہ ظالموں کے آگے سر نہ جھکانے کا عزم ظاہر کررہی تھیں-اس سے لوگوں کو یا جذبہ مل رہا تھا-ایسی کئی مائیں ہیں جنہوں نے اپنے غم کو ،دکھ کو طاقت بنادیا ہے-اور سنت زینب ادا کرنے کو بے تاب ہیں-ان ماؤں،بہنوں اور بیواؤں کی ہمت کو سرخ سلام ہے

kids

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abbas rizvi
    -
  2. Ahmad
    -
  3. سید حُرعباس نقوی
    -
  4. Urdu Editorials
    -
  5. saima
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.