مولوی امیر حمزہ تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو‏ -by Aamir Hussaini

مولوی امیر حمزہ !تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو

مولوی امیر حمزہ صاحب
میں کبھی بھی آپ کے عزائم بارے کبھی کسی دھوکے کا اور کسی فریب کا شکار نہیں ہوا -میں اس فریب کا شکار اس لئے نہیں ہوا تھا کہ میں آپ کی تاریخ سے بہت اچھی طرح سے واقف ہوں-آپ نے جہاد کشمیر کے نام پر لشکر طیبہ بنائی تھی اور اس کا جو ترجمان رسالہ غزوہ کے نام سے آتا تھا جس کے آپ مدیر تھے اور اس رسالے میں آپ نے پاکستان میں شرک ،بدعت اور طاغوت کے اڈوں اور مراکز کا ذکر شروع کیا تھا اور یہ مراکز آپ کے خیال میں کراچی سے خیبر تک پہلے ہوئے مزارات ،امام بارگاہیں اور سالانہ لگنے والے میلے تھے-آپ قلمی نام سے ان سب مراکز کے خاتمے کی دعوت دیتے تھے- آپ کی تنظیم لشکر طیبہ کے ملک بھر میں مراکز یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ تقلید کرنے والے گمراہ ہیں اور بدعتی بھی ہیں-اور آپ کے نزدیک حنفی شافعی ،مالکی حنبلی سب فقہی مذاھب ٹھیک نہ تھے-مقصد لشکر طیبہ کا کشمیر کی آزادی نہیں تھا بلکہ پاکستان،کشمیر ،بنگلہ دیش اور ہندوستان میں سلفی مسلک کا پھیلاؤ ہ- یہ کام آل سعود کی مدد سے کیا جارہا تھا-اور اب تک کیا جارہا ہے- لشکر طیبہ کے لوگوں نے کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں مزارات کو جلانے تک کی کوشش کی-لشکر طیبہ کے لوگ تھے جو بریلوی عالم مولوی اکرم رضوی کے قتل میں ملوث تھے

مولانا شاہ احمد نورانی کا یہ بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے-کہ”مریدکے میں الدعوه مرکز میں ایک لاکھ کلاشنکوف ہے-اور یہ سنی کے لئے ہے” اس لئے آپ جب اتحاد امت کی بات کرتے ہو یا خود کو فرقہ پرستی سے بالا تر قرار دیتے ہو تو مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور مجھے حیرانگی بھی ہوتی ہے-حیرانگی اس لئے ہوتی ہے کہ تمھارے جو فکری آباء تھے خوارج وہ جیسے بھی تھے مگر منافق نہیں تھے-تم خارجی فکر رکھتے ہو مگر ان جیسی بیباکی نہیں-تم سعودی مال کی لالچ کے ذریعہ سے اور لوگوں کی محرومیوں سے فائدہ اٹھاکر پاکستان میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنا چاہتے ہو -لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا- تمھیں یاد ہے کہ حجاز جس کو برٹش سامراج نے ایک ڈاکو قبیلے آل سعود کے رحم و کرم پر چھوڑا اور اس کو سعودیہ عرب کرڈالا تھا

آج بھی سلفی اقلیت میں ہیں-جبکہ سارے مڈل ایسٹ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں-مگر جبر اورتشدد کے بل بوتے پر اور بربریت کی بنیاد اکثریت پر اپنی فکر تھوپننے کے چکر میں ہیں- تمہارا جہاد کیا ہے؟اور سامراج کی جنگ کیا ہے؟ افریقہ سے لیکر ایشیا تک بم دھماکے،خود کش حملے،مزارات،امام بارگاہوں اورجلسے جلوسوں میں معصوم لوگوں کی ہلاکتیں-جبکہ کلسٹر بم،ڈیزی کٹر،بی ففٹیٹو کیا کرتے ہیں وہ بھی تو یہی بربریت پھیلاتے ہیں جو تم اور تمھارے جیسے نام نہاد مجاہد پھیلاتے پھرتے ہیں- تم بھگت سنگھ کے نام پر شادمان چوک کا نام رکھنے کے خلاف جلوس نکالتے ہو اور اسلام کو خطرہ بتلاتے ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پورے لاہور میں برٹش سامراجیوں کے نام سے روڈ اور چوکوں کے نام موجود ہیں-تم نے کبھی کوئی جلوس نہیں نکالا اور کبھی ان ناموں کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا- تم نے کبھی سعودیہ عرب میں سامراجیوں کی یادگاروں کو چیلنج نہیں کیا-کیونکہ تمھیں ان سے کوئی معاملہ نہیں ہے-تمھیں بھگت سنگھ اس لئے برا لگا کہ وہ آزادی کا پروانہ تھا-تم کو خطرہ ہے کہ تم تاریخ میں ہندوں،مسیحوں،سکھوں کے کرداروں کو مسخ کرتے رہے ہو-تم یہ لکھتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ سب برٹش آقاؤں کے منظور نظر تھے-اور مسلمانوں کے خلاف تھے-اس جھوٹے پروپیگنڈے کو زک اس وقت لگتی ہے جب تاریخ میں بھگت سنگھ،نیتا جی سبھاش چندر بوس،احسان قادر ،لکشمی جی رانی جھانسی جیسے نام آزادی کے ہیروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں-تم تو ہندو کو مکار ،سکھ کو کینہ پرور بتاتے ہو اور سب کو مسلم آبادی کو فنا کرنے کی خواہش رکھنے
والا بتاتے ہو- مگر تاریخ کا مادی جدلیاتی تجزیہ تمھارے فریب کا پول کھول دینے کے لئے موجود ہے-ہندوستان کی تاریخ میں کسان ،مزدور ،طالب علم رنگ ،نسل،مذھب ذات،فرقہ جیسے امتیازات سے بالاتر ہوکر بھی لڑتے رہے ہیں-بھگت سنگھ اور اس کی تنظیم ایسی ہی یکجہتی کا احر تھی-اس میں ہندو،مثل،سکھ،مسیحی سب ہی شامل تھے-مسلم خورشید انور جو پاکستان کے معروف موسیقار بنے اسی بھگت سنگھ کے ساتھ تھے-تم کہتے ہو کہ بھگت سنگھ ہندوستانی تھا تو اگر اس سے مراد تقسیم
سے قبل کی ہی تو پھر جناح ،اقبال اور خود تمھارے اکابر ثنا الله امرتسری تک ہندوستانی تھے-اور حقیقت یہ ہے کہ بھگت سنگھ تو فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور اس کے خون میں ابال لاہور میں ایک جلوس پر انگریز ڈی ایس پی کے تشدد سے آیا تھا اور جلیانوالہ باغ میں جو قتل عام ہوا تھا اس پر اس نے بغاوت کا رستہ اپنایا تھا-اگر بھگت سنگھ تم جیسا تنگ نظر ہوتا تو صرف گرو جی دی خالصہ کا سلوگن لگاکر صرف سکھوں کی آزادی کی بات کرتا-اور تم اتنے جاہل ہو یا جن بوجھ کر حقائق مسخ کر رہے ہو کہ بھگت سنگھ کی پھانسی پر مذمت کرنے والوں غزنوی خاندان بھی شامل تھا جوکہ تمھارے اکابر میں شامل ہے-جمعیت علما ہند ،آل انڈیا مسلم لیگ،مجلس احرار شیعہ پولیٹیکل کانفنس ،خلافت کیمٹی ،انجمن غرباء اہل حدیث کے نام اور بیانات بھگت سنگھ کے حق میں موجود تھے- امیر حمزہ کل تک جو سب کا ہیرو اور ممدوح تھا تم آج اس کو صرف موجودہ انڈیا والوںکا ہیرو کہتے ہو-ادھر شیو سینا ،اکالی والے آزدی کے مشترکہ کرداروں کو ہندو ہو تو اپنا ،سکھ ہو تو اپنا اور مسلم ہو تو غیر کہتے ہیں-وہ بھی وہاں ہند-مسلم کلچر کے مشترکات کو ہندوانہ قرار دیتے ہیں اور تم یہاں بس مسلم کو اور یہ بھی ایک فریب ہے-تمہارا بس چلے تو کلچر بھی سلفیانہ کرڈالو

یاد رکھو بھگت سنگھ ہو یا کوئی اور اس کو حکمرانوں کے جواز کی نہ کل ضرورت تھی نہ آج ہے-بھگت کو تم رد کرتے ہو تو تم خود کو بانجھ ثابت کرتے ہو-بھگت جیسوں کو اپنا کہنا بھگت کی زینت نہیں بلکہ کہنے والے کے قد کٹھ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے- مولوی صاحب!تاریخ جب بھی آپ کے کا ذکر کرے گی تو مزمم کے طور پر کرے گی اور ایک تدلیس کار اور ایک جھوٹے داستان گو کے طور پر کرے گی

از :عامر حسینی

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.