Sacred cow – by Khalid Wasti

==================
مقدس گائے
==================

ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ ہمارا دین مکمل ہو چکا ہے – کوئی نیا پیغام ، کوئی صحیفہ کوئی مقدس گائے آسمان سے نہیں اترے گی – اب اس زمین پر ہر شخص مقدس یا ذلیل محض اپنے اعمال اور کردار کی بنیاد پر ٹھہرے گا – اکیسویں صدی میں آسان نہیں رہے گا کہ جہالت اور توہمات پر مبنی تصورات کو مُلاں ایک فتوے کے زور پر منوا لے – اب مسائل کوعلم و آگہی ، عقل وخرد ، فہم و فراست اور دلیل و منطق کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا

فرد کی طرح اداروں کی شہرت یا بد نامی کا تعین بھی ان کی کارگردگی اور طرز عمل سے ہوگا – پولیس اگر ایک بدعنوان ادارے کے طور پر زبان زد عام ہوچکی ہے تو اب یہ داغ کسی قانون کے بنانے سے نہیں دھل سکتا – مثلا اگر ایک ایکٹ نافذ کر دیا جائے کہ آج سے پولیس کو دیانتداری کے اعلی ترین مقام پر فائز سمجھا جائے تو کیا عوام کی رائے پولیس کے بارہ میں تبدیل ہو جائے گی ؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ وہ مصلحت یا خوف کے مارے اس کا اظہار نہیں کر پائیں گے – پولیس کی بدنامی جوں کی توں برقرار رہے گی تاآنکہ وہ اپنے حسن عمل کے تسلسل کی بنیاد پر بدنامی کے داغ دھو کر نیک نامی حاصل نہیں کر لیتی – کسی ادارے کے متعلق خلق خدا کی رائے راتوں رات نہیں بن جاتی اس کے پیچھے اس ادارے کا سال ہا سال پر مبنی اعمال نامہ موجود ہوتا ہے

اس تمہید کے باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض جذباتی قارئین ایک منطقی استدلال کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں – دراصل نشاندہی اس خطرہ کی کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے “آئینی اثاثوں“ کو درہیش ہے – مسئلہ یہ ہے کہ انتخاب کے ذریعے قیامت تک برسراقتار نہ آسکنے والی قوتیں جو پچھلے ساٹھ سال سے عوام کے حق حکمرانی پر قابض ہیں، اس اقتدار کو اپنے ہاتھوں سے جاتا دیکھ نہیں سکتیں – قدرتی بات ہے کہ اس طاقت نے آخری دم تک عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے –
پچھلے ساٹھ سال میں مختلف مراحل پر مختلف ہتھکنڈے اختیار کیئے گئے – مارشل لاء ، پھانسی کا پھندا ، کوڑے ، تشدد ، جیلیں ، تحریص و ترغیب ، جعلی عوامی پارٹیوں کا قیام اور ان کی سرپرستی، آئی جے آئی کی تشکیل اور میڈیا کا استعمال غرض وہ کون سا ایسا حربہ ہے جو دو فیصد پر مشتمل اس “قبضہ گروپ“ نے پاکستان کی اٹھانونے فیصد آبادی کے استحصال کے لیئے استعمال نہیں کیا ؟

آج کے بدلے ہوئے زمینی حقائق کی مجبوریوں کے پیش نظر دیگر ممکنہ حربوں کے ساتھ ساتھ تازہ ترین حربہ عدلیہ کی بالا دستی کی دھول ہے جسے “ ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر“ عوام کی آنکھوں میں جھونکنے کے لیئے “گرینڈ پلان“ کا حصہ بنا یا گیا ہے

آج تک تو ہم عدلیہ کی آزادی اور پارلیمینٹ کا اصول سنتے آئے تھے ، آج “اقتدار کے اصل مالکوں“ نے اس اصول کو الٹا کر آزای کے لفظ کو بالا دستی سے بدل دیا ہے – جیسا کہ اس سے پہلے ، “نظریہءپاکستان“ کے مفہوم کو الٹا کر قیام پاکستان کی دشمن جماعتوں کو ہی اس کا “اصلی اور سچا“ وارث بنایا گیا تھا – پارلیمینٹ کے بالا دست ہونے کا اصول مان لیا جائے تو عدلیہ کی آزادی کا مفہوم بغیر کسی ابہام کے خودبخود واضح ہو جاتا ہے یعنی کہ عدلیہ کی یہ آزادی پارلیمینٹ کی بالا دستی کے نیچے ہے

اس لیئے آنے والے دنوں میں “آزاد میڈیا“ کے ذریعے عدلیہ کے بالا دست ہونے کی اصطلاح اس زور اور اس کثرت سے بیان کی جائے گی کہ جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہو جائے

پارلیمینٹ زمین پر خدا کے حق حکمرانی کا واحد اور آخری ادارہ ہے – پارلیمینٹ کو یہ حق خدا تعالی نے اپنے بندوں کے منتخب نمائیندوں کے ذریعے عطا کیا ہے – یہی منتخب نمائیدے ملک کا آئین بناتے ہیں اور حسب ضرورت اس آئین میں ترمیم کرتے ہیں – پارلیمینٹ ملک میں قائم مختلف اداروں کو اختیارات تفویض کرتی ہے مثلا فوج ، بیوروکریسی ، سینٹرل بورڈ آف ریوینیو ، سٹیٹ بینک آف پاکستان ، چئیرمین نیب اور عدلیہ وغیرہ – یہ تمام ادارے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے روزمرہ امور چلانے میں اس کی مدد کرتے ہیں – اگر ان اداروں کا آپس میں یا حکومت کے ساتھ کوئی اختلاف ہو جائے یا صوبوں کا آپس میں یاصوبوں کا حکومت کے ساتھ کوئی اختلاف ہو جائے تو ان امور کا تصفیہ کرنے کی آخری مجاز اتھارٹی سپریم کورٹ ہے – سپریم کورٹ کو پارلیمینٹ نے اوربھی وسیع اختیارات دے رکھے ہیں – مثلا آئین کے کسی حصے کی تشریح کرنا ، وقتا فوقتا ہونے والی ترامیم کا جائزہ لینا کہ وہ آئین کے کسی آرٹیکل سے متصادم تو نہیں – اگر سپریم کورٹ کسی ترمیم کو آئین کے کسی حصے کے خلاف قرار دے تو پھر پالیمینٹ کو نظر ثانی کرکے اس کی اصلاح کرنا ہوتی ہے

بچپن کا ابتدائی دور یاد آگیا – رات کو سوتے وقت امی یا ابو سے کہانیاں سننے کے ساتھ ساتھ جو سوال پوچھے جاتے تھے ان میں سوالوں کی ایک یہ سیریز بھی شامل ہوتی تھی کہ فلاں چیز کو کس نے بنایا ہے ، آخر کار مقطع میں یہ سخن گسترانہ بات آہی جایا کرتی تھی کہ اللہ میاں کو کس نے بنایا ہے ؟ اور اس بات کو سمجھنے اور قبول کرنے میں شدید الجھن ہوتی کہ اسے کسی نے نہیں بنایا – وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا – کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سارے جھگڑوں کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کر دیا – اب اگر سپریم کورٹ کا اسی ادارے یعنی پارلیمینٹ سے جس نے اسے تمام اختیارات دیئے تھے ، کسی نکتے پر اختلاف ہو جائے تو آخری فیصلہ کرنے کا مجاز ادارہ کون سا ہے – “چین آف کمانڈ‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حتمی اختیار پارلیمینٹ کو حاصل ہے -سپریم کورٹ اپنے اختیارات استعمال کرتی یے پارلیمینٹ سے لی ہوئی طاقت کے ذریعے – پارلیمینٹ چلتی ہے عوام سے ملی ہوئی قوت کے بل پر ، عوام کو یہ طاقت خدا تعالی دیتا ہے کہ تم زمین پر میرا اختیار قائم کرو

عوام کے حق حکمرانی پر ، جمہوری نظام پر اور ون مین ون ووٹ کے فلسفے پر یقین رکھنے والوں کو تو پارلیمینٹ کی بالا دستی تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں لیکن عوامی راج سے خائف ، اقتدار پر قابض “شکنجہ گروپ“ اس اصول کو تسلیم نہیں کر سکتا – اس لیئے کہ اس کے تسلیم کر لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہہ وہ ایوان اقتدار سے اپنا بستر بوریا گول کر لے، جو کہ نا ممکن ہے

مُلاں کئی صدیوں کی عملی ٹرینگ اور پریکٹس کی بدولت بعض امور میں اپنا ثانی نہیں رکھتا – مثلا صاحب اقتدار کے لیئے اس کا من پسند شرعی فتوی جاری کرنا ، کسی فعل کو اسلامی اصولوں کے منافی قرار دینا اور پھر حسب ضرورت اسی فعل کو عین اسلامی ثابت کر دینا ، واضح اور دو ٹوک بات کرنے کی بجائے گول مول باتیں کرکے ابہام پیدا کرنا – انہی اوصاف کی بدولت مُلاں شکنجہ گروپ کے “سپوکس پرسن“ کا کردارادا کرنے کے لیئے میدان عمل میں کود پڑتا ہے – مُلاں سے مراد کوئی خاص قسم کی شکل و صورت ، لباس یا روزمرہ زندگی کی مخصوص مصروفیات رکھنے والا ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جس کے اندر مُلاں کی روح سرایت کر چکی ہے – وہ ضیاءالحق بھی ہو سکتا ہے ، حمید گل بھی ، اکرم شیخ بھی اور انصار عباسی بھی

ان کا “مغالطہءواردات“ یہ ہوتا ہے کہ تصویر کے ایک ہی رخ کو یا کسی مسئلے کے ایک ہی پہلو کو اتنے زوروشور اور شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ گویا جو ایک رخ یہ پیش کر رہے ، یہی مکمل مسئلہ ہے – پارلیمینٹ اور سپریم کورٹ کے حوالے سے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ حکومت پر بائینڈنگ ہے اور سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی کسی بھی آئینی ترمیم کو معطل کر سکتی ہے – مُلاں تصویر کا یہ رخ کبھی بیان نہیں کرے گا کہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیئے آئین مختلف اداروں کو جب اختیارات تفویض کرتا ہے تو یہ ایک اصول طے شدہ اصول ہوتا ہے کہ تمام ادارے باہمی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے امور مملکت کو سرانجام دینے میں سہولت پیدا کریں گے ، کسی کے لیئے روکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے

جب ہم کہتے ہیں کہ مملکت کے ان ستونوں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت پیدا ہو جائے تو حتمی اور قطعی رائے پارلیمینٹ کی ہوگی – یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارلیمینٹ کو سرخاب کا پر لگا ہے جس کی بنیاد پر اس کی رائے کو حتمی کہا جا رہا ہے تو جواب یہ کہ جی ہاں واقعی پارلیمینٹ کو سرخاب کاایک ایسا پر لگا ہوا ہے جس سے عدلیہ محروم ہے اور وہ ہے عوام کے منتخب نمائیندہ ہونے کا حق – عدلیہ کتنی بھی معزز ہو جائے کسی قوم کی نمائیندہ بہرحال نہیں ہوا کرتی – قوم کے نمائیندے وہی خواتین و حضرات ہیں جو اسمبلیوں اور سینٹ میں بیٹھے ہیں

ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ روز مرہ زندگی میں ، لین دین کرتے ہوئے ، ایک دوسرے سے برتارے کے دوران ہم حسن سلوک اور باہمی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہیں – تالی دونوں سے بجتی ہے – اگر کوئی ایک فریق ان آداب کو مسلسل نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے تو دوسری طرف بھی کوئی لحاظ باقی نہیں رہتا اور پھر معاملات کو خالصتا اصولوں کی بنیاد پر طے کرنا پڑتا ہے – اب محض اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کریں کہ جج حضرات کون ہیں ؟ کہاں سے آتے ہیں ؟ کیا یہ کوئی غیر مرئی مخلوق ہیں ؟ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا آسمان سے اترے ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔۔ ان کے پاس پاکیزگی ، نیکی اور تقوی و طہارت کی کوئی خصوصی سند ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ؟ نہیں کوئی ایسی سند نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ اسی دھرتی اور اسی معاشرے کی جم پل ہیں ؟ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ کیا یہ دوسرے لوگوں جیسا ہی بچپن ، لڑکپن اور جوانی گزارتے ہیں ؟
جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کی طرح مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش کرتے ہیں ؟ جی ہاں ، پی سی ایس اور سی ایس ایس کر کے گریڈ سترہ کی ملازمت پاتے ہیں پھر اگلے گریڈوں میں ترقی کرکے دوسرے ملازموں کی طرح ریٹائر ہو جاتے ہیں – بعض لوگ ایل ایل بی یا بیرسٹری کرکے وکالت کی پریکٹس کرتے ہیں اور ایک معینہ عرصہ کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اعلی عدالتوں میں براہ راست بھی ایڈہاک جج کے طور پرآجاتے ہیں – جیسا کہ کوئی بھی شخص مقدس گائے کی حیثیت نہیں رکھتا بالکل اسی طرح اعلی عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جج بھی مقدس گائے نہیں ہیں –
کوئی آسمان سے نہیں اترا، کسی کے پاس تقدس واحترام کا الوہی پروانہ نہیں ہے

ہر شخص کو اپنے اعمال کی بدولت اپنی پہچان بنانی ہے – محمد خان ڈاکو یا رحمان ڈکیت اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ڈاکو اور ڈکیت بنے – عبدالستار ایدھی یا عاصمہ جہانگیر نے اپنے اعمال کی بنیاد پر یہ نیک نامی حاصل کی ہے – ادارے بھی افراد کی طرح معاشرے میں اپنی پہچان بناتے ہیں – پٹواری یا پولیس اپنے سال ہا سال کے طرز عمل اور کردار کی بنیاد پر اپنی ایک منفی شناخت بنا چکے ہیں – بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جسے ایک مثبت مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے – جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بحیثیت ایک ادارہ اس کی کارکردگی اگر شرمناک نہیں تو قابل فخر بھی ہر گز نہیں رہی – ایک سے زیادہ مرتبہ ملک کا آئین توڑنے والے غاصبوں کو جوازکی سندعطا ، آئین میں ترمیم کرنے کے وہ اختیارات بھی دے دیئے جو خود سپریم کے پاس بھی نہیں تھے

( نہ معلوم یہ اختیارات سے تجاوز ہے کہ نہیں !) ، ملک کے جمہوری وزیر اعظم کا جوڈیشل مرڈر کیا ، ابھی حال ہی میں جسٹسس خلیل رمدے کو ریٹائرمینٹ کے بعد اصرار کر کے سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کے طور پر رکھوایا گیا جبکہ مستقل جج کی آسامی وہاں خالی تھی ، پانچ ججوں کا بینچ تشکیل دیاجس میں دو ایسے جج بٹھائے گئے جو اپنے خلاف ہی ایک کیس کی سماعت کرنے جارہے تھے ، جعلی ڈگری رکھنے والے ایک پارٹی کے رکن کے خلاف ایک فیصلہ اور دوسری پارٹی کے رکن کے خلاف دوسرا فیصلہ آتا ہے – اندریں حالات پاکستان کے عوام نے عدلیہ کو اس کے استحقاق سے بڑھ کر عزت دی – مہذب ملکوں میں عدلیہ کے احترام کے حوالے تو باتیں کی جاتی ہیں لیکن مہذب ملکوں کی عدلیہ کے فیصلوں اور طرز عمل کا حوالہ نہیں دیا جاتا – یہ بھی “مُلاں‘‘ کا تصویر کے صرف ایک رخ کو پیش کرنے کا حربہ ہے

اٹھانوے فیصد عوام کو یرغمال بنانے والا “قبضہ گروپ“ اور اس کے حصہ دار مُلا، میڈیا کے بکثرت استعمال سے کسی فرد یا ادارے کو مقدس گائے بنانے پر تلے بیٹھے ہیں حالانکہ کسی نے مقدس گائے بنناہے تو اس کے لیئے قواعد و ضوابط اور پراپیگنڈا کی نہیں ، نیک نیتی ، غیرجانبداری اورعدل وانصاف کی سربلندی کے لیئے عملی نمونہ بن کر دکھانے کی طویل ریاضت درکار ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
  2. drtahir
    -
  3. محمداسد
    -
  4. mohtasham
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.