Don’t turn the Objectives Resolution into the Ulterior Objectives Resolution – by Khalid Wasti

============================
قرار داد مقاصد سے اٹھارویں آئینی ترمیم تک !
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک سفر ، ایک کہانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قرار داد مقاصد کو قرار داد مذموم مقاصد نہ بنائیے
============================


روشنی اور اندھیرا ، علم اور جہالت ،عقلیت پسندی اور رجعت پرستی ، وسیع القلبی اور تنگ نظری ، روشن خیالی اور بنیاد پرستی ، معتدل مزاجی اور انتہا پسندی ایک دوسرے سے متصادم ، ایک دوسرے کے برعکس اور ایک دوسرے کے الٹ ہیں – ان کی آپس میں مفاہمت ممکن ہی نہیں –
قائد اعظم ایک روشن خیال ، علم و آگہی کے علمبردار ، عقلیت پسند ، جدید تعلیم سے آراستہ معتدل مزاج اور وسیع القلب مسلمان رہنما تھے – آپ بر صغیر کے مسلمانوں کے لیئےانہی تصورات و نظریات پر مبنی ایک ملک بنانا چاہتے تھے – اس مقصد کے حصول کے لیئے آپ کوصرف انگریزوں اور ہندوؤں سے ہی جنگ نہیں کرنا پڑی بلکہ آپ کو اپنے وقت کے ملاؤں کے ساتھ بھی نبرد آزما ہونا پڑا -“ مُلاں ‘‘جو اندھیرے ، جہالت ، رجعت پرستی ، تنگ نظری اور انتہا پسندی کی علامت ہے ، میرے قائد کا دشمن تھا !

“ مُلاں ‘‘ کی جنگ تھی ، قائد اعظم کے ساتھ ——— کیوں تھی؟ ——— اس لیئے کہ قائد اعظم مسلماںوں کے لیئے ایک ایسا جدید ، روشن خیال ، اسلامی ، فلاحی ملک بنانا چاہتے تھے جہاں انصاف ہو ، آزادی ہو ، بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب ، ہر شخص کے لیئے ترقی کے یکساں مواقع ہوں ، ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو ، جہاں عوام کے دین و ایمان کا ٹھیکہ کسی خطیب ، کسی پیش امام ، کسی “ملاں“ کے پاس نہ ہو ، کسی شخص یا ادارے کو جنت میں داخلے کا لا ئسینس جاری کرنے کا اختیارنہ ہو تھیو کریسی (ملائیت) نہ ہو اور ریاست کو کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہ ہو –

ایسا ملک “ملاں“ کو کیسے قبول ہو سکتا تھا جہاں نہ تواقتدار میں اس کاحصہ ہو اور نہ ہی معاشرے میں جھوٹی اور جعلی عزت و تکریم اور تقدس کا وہ مقام جو اسے ایک “تھیو کریٹک سٹیٹ “ میں حاصل ہو سکتا تھا-اس حقیقت کے سمجھنے میں کیا دشواری ہے کہ قائد اعظم اور مُلاں کے رستے جدا جدا تھے – مُلاں نے قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا اور فتوی جاری کیا کہ پاکستان بن جانے کی صورت میں قائد اعظم کی حکومت ایک کافرانہ حکومت ہوگی اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے-
ملک کی بدقسمتی کہ قائد اعظم پاکستان کے قیام کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکےاوران کے تصور ریاست سے متضاد تصور ریاست رکھنے والے ملاں کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے پلان پر عملدرآمد کا آغاز کر سکے-
قائد اعظم کے سیکولر سٹیٹ کے تصور کا شیرازہ بکھیرنے اور اسے ملاں کی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیئے ایک ایسی بنیادی اینٹ رکھنے کی ضرورت تھی جس پر آگے چل کر تھیوکریسی کی عمارت تعمیر کی جا سکے – چنانچہ لیاقت علی خان کے ذریعے آئین ساز اسمبلی سے ایک قراردار منظور کرائی گئی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس ملک کے آئین کا کوئی آرٹیکل اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں بنایا جائے گا – اس قرارداد کانام قرارداد مقاصد رکھا گیا- اسے مختلف مولویوں نے باہمی مشاورت سے تیار کیا اور چھبیس مولویوں نے اس پر دستخط کیئے – اب میرے جیسا ظاہربیں شخص تو یہی کہے گا کہ آخر اس میں کون سی ایسی بری بات ہے جس پر کوئی اعتراض کیا جائے؟ ذرا سا گہرائی میں جاکر سوچیں تو آپ پر ملاں کی بدنیتی واضح ہو جائیگی-
ایک مسلمان ملک کی پارلیمینٹ میں بیٹھے ہوئےمسلمان ممبران کوئی ایسا قانون کس طرح بنا سکتے ہیں جو ان کے اپنے دین و ایمان کے منافی ہو ؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی سر پھرا یہودی اسرئیل کی اسمبلی میں قرار داد پیش کر دے کہ یہ اسمبلی کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں بنائے گی – اصل بات یہ ہے کہ “اسلامی تعلیمات کے منافی ہونا “ دو جمع دو جیسا حسابی سوال نہیں ہے کہ دنیا کے ہر خطےمیں ، ہر وقت اور ہر موسم میں جس کا جواب چار ہی ہو – ملاں کی چال یہ تھی کہ آخر اس معاملہ میں اتھارٹی تو میری ہی تسلیم کی جائے گی کہ کون سی چیز اسلام کے مطابق ہے اور کون سی اس کے منافی – اس لیئے بالا دستی تو اپنی ہی ہوگی ، جو چاہیں منظور کریں اور جسے چاہیں مسترد کریں-
یہاں ایک لطیفہ یاد آیا – کسی گاؤں میں ایک دھوبی کے بیل نے حملہ کرکے اسی گاؤں کے مولوی کے بیل کو مار دیا – دھوبی ایک ذہین انسان تھا ، مولوی کے پاس گیا اور فتوی مانگا کہ اگر ایک بیل دوسرے بیل کو ہلاک کر دے تو اس کا خمیازہ کون بھگتے گا – مولوی نے کہا کہ بیل ایک “بے زبان“ جانور ہے اس نے اگر دوسرے جانور کو مار دیا تو اس میں خمیازے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – دھوبی نے (دل ہی دل میں خوش ہو کر) کہا کہ اچھا ، پھر اطلاع یہ ہے کہ میرے بیل نے تمہارے بیل کو مار دیا ہے – دھوبی اگر ذہین تھا تو مولوی عیار ۔۔۔۔ ! کہنے لگا ٹھہرو ، مجھے “لال کتاب“ نکال کر کنفرم کر لینے دو – چنانچہ اس نے لال کتاب کھولی اور ناخواندہ دھوبی کے سامنے بآواز بلند پڑھنا شروع کیا : لال کتاب کہیندی یوں — دھوبی داند بھڑایا کیوں —— کھل کھوا کے کیتا س مستانا —–
داند دا داند تے وکھ جرمانہ –
ملاں کی بد نیتی کا واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی زندگی میں پیش نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اس کے مضمرات سے آگاہ نہ ہو سکتے اور ریاست کے اس تصور پر کوئی آنچ آنے دیتے جو آپ نے طے کیا ہوا تھا –
“ملاں“ کواقتدار میں حصہ صرف دو صورتوں میں مل سکتا تھا – یا تو ساری قوم مریدان باصفا کے طور پر ان کے حلقہء ارادت میں شامل ہو جاتی ، جو کہ ناممکن تھا ، یا ون مین ون ووٹ کے نظام سے ہٹ کر کوئی اور نظام حکومت بنے جس کی نوکری کے صدقے “ملاں“ کو اقتدار میں اپنا حصہ ملتا رہے – کیونکہ جمہوری نظام کے تحت ، ایک آدمی ایک ووٹ کی صورت میں تو اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں – (انیس سو ستر کے عام انتخابات میں اس کا عملی ثبوت مل گیا جب جماعت اسلامی کو پورے ملک میں صرف چار نشستیں ملیں ) –


ادھر ملاں نے مستقبل کے گٹھ جوڑ کے لیئے قرار داد مقاصد کی ابتدائی اینٹ رکھ دی اور دوسری طرف افواج پاکستان کے “غازی اور پراسرار بندے“ “ ملک کے وسیع تر مفاد میں“ اس کی باگ ڈور سنبھالنے کا فیصلہ کر چکے تھے – اس مرحلہ پرپہنچ کر ملاں اور ملٹری کا ٹارگٹ اور مقصد بھی مشترک ہو گیا یعنی اقتدار پر قبضہ – اور مسئلہ بھی دونوں کا مشترک ہو گیا یعنی نہ تو فوج عوام کے ذریعےمنتخب ہوسکتی تھی اور نہ ہی ملاں کو عوام اتنی پذیرائی دے سکتے تھے کہ وہ حکومت بنا سکے چنانچہ ایک غیر نمائیندہ حکومت کے قیام کے لیئے مُلاں گویا ملٹری کا نیچرل الائی بن گیا – اس طرح ایک سازش کے بطن سے “ملاں ملٹری اتحاد“ نے جنم لیا- اس اتحاد میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیئے بیوروکریسی ، جاگیر دار اور وڈیرے بھی شامل ہوگئے اور ملک کی دو فیصد سے بھی کم آبادی پر مشتمل ایک ایسا “قبضہ گروپ “ معرض وجود میں آگیا جس نے ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی کو اپنی حکمرانی کے چنگل میں جکڑ لیا – اس “قبضہ گروپ“ کی حکمرانی نے نصف صدی میں اس ملک اور اس کے عوام کا جو حلیہ بگاڑا وہ سب کے سامنے ہے –

ملک کے تمام تر عذابوں ، خستہ حالیوں اور تباہیوں کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اس ملک کو اس طرح کی ریاست بننے سے روک دیا گیا جیسا کہ قائد اعظم اسے بنانا چاہتے تھے اور اسے گمراہی کے اس رستے پر ڈال دیا گیا جو قائد کے دشمن مُلاں کی ریاست کی طرف جاتا تھا – اس پہلو سے اگر دیکھیں تو پاکستان کی موجودہ ناکامیاں قائد اعظم کی ناکامیاں نہیں بلکہ آپ کے نظریاتی دشمن ، ملاں کی ناکامیاں ہیں کیونکہ پچھلے ساٹھ برسوں میں پاکستان قائد کاپاکستان کم اورملاں کاپاکستان زیادہ بن چکا ہے –
افواج پاکستان کے اقتدار میں رہنے کے لیئے ضروری تھا کہ پاکستان کو خطرے میں بتایا جائے اور مُلاں کی حصہ داری قائم رکھنے کے لیئے اسلام کو خطرے میں بتانا ضروری تھا تاکہ فوج ملک کی جغرافیعائی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے فرائض بطریق احسن سر انجام دیتی رہے، ملک کے بجٹ کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور عوام کے بنیادی مسئل حل کرنے کی بجائے فوج کی جھولی میں گرتا رہے ، اسلحہ ، لڑاکا طیاروں اور آبدوزوں کی خریداری ہوتی رہے ، کک بیکس اور کمشن ملتا رہے اور کاروبار سلطنت چلتا رہے –
دوسری طرف ، مُلاں اسلام کو خطرے سے نکالنے کے لیئےمعاشرے کے اندر فرقہ واریت ، انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت پیدا کر نے کے لیئےکبھی نظام مصطفے اور کبھی نظام شریعت کی تحریک چلائے ، ایک جہادی ذہنیت پیدا کرے جسے طاقت کے مراکز حسب ضرورت جہاں چاہیں استعمال کرتے رہیں – چنانچہ ساٹھ سال تک مسلسل ایک نہ ختم ہونے والا پراپیگنڈا جاری رہا کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ اسے صفحہءہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے – اسلام خطرے میں ہے – یہود اور ہنود مل کر اسلام کے خلاف ایک گہری عالمی سازش میں مبتلا ہیں –

ملاں نے قرارداد مقاصد کی پہلی اینٹ پر دیوار بنانے کے عمل کوموقع محل کی مناسبت سے مرحلہ وار جاری رکھا – لیاقت علی خان کے زمانے میں قرار داد منظور ہوئی ، چوہدری محمد علی کے زمانے میں اسے آئین کا دیباچہ بنایا گیا اور ضیاءالحق کے سیاہ دور میں اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا –
“قبضہ گروپ“ نے عوام کے حق حکمرانی کا انکار کرتے ہوئےآدھا ملک گنوا دینے پر بھی کوئی ندامت محسوس نہیں کی بلکہ مطمئن ہوگئے کہ چلو باقی ماندہ ملک پر تو ہماری اجارہ داری قائم ہے اور یقین جانیئے کہ اس پالیسی کے نتیجہ میں کل کلاں خدانخواستہ اسلامی جمہوریہ کے طور پر صرف پنجاب ہی باقی رہ گیا تو تب بھی اس ٹولے کے لیئے تشویش کا کوئی مقام نہیں ہو گا بلکہ ان کے لیئے تو خوشی کا مقام ہو گا کہ جس شخص کو کافر اعظم قرار دیا تھا ، اس کی سیکولر ریاست کے خواب کو ہم نے پورا نہیں ہونے دیا اوربالا آخر (اپنے زعم میں) اسلام کا بول بالا کر کے چھوڑا –

قائد اعظم کے بیان کردہ اصولوں اور تصورات کی پامالی کے نتیجہ میں اس ملک کے عوام کی تباہ حالی کو دیکھ کر ایک شخص اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوا اور اس نے عہد کیا کہ وہ اس ملک سے مُلاں ، ملڑی ، بیوروکریسی ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے شکنجے سے عوام کو رہائی دلائے گا اور اس ملک کو دوبارہ قائد اعظم کا جدید ، ترقی یافتہ ، روشن خیال ، اسلامی ، جمہوری ، فلاحی اور سیکولرپاکستان بنا کر دم لے گا تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اس شخص کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے –
قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم کی وفات سے لیکر پیپلز پارٹی کے قیام یعنی انیس سو سڑسٹھ تک یہ سب سے بڑا چیلنج تھا جس کا سامنا “قبضہ گروپ“ کو کرنا پڑا – گویا ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کی تاریغ کا وہ پہلا ‘‘مجرم“ تھا جس نے “قبضہ گروپ“ کا شکنجہ توڑنے کا اعلان کیا – یہ “جرم“ کیسے معاف ہو سکتا تھا چنانچہ ذوالفقارعلی بھٹو کو “عبرتناک مثال “ بنا دینے کی سازش شروع ہو گئی –
قبضہ گروپ کی غیر معمولی قوت اور بین الاقوامی استعمار کی پشت پناہی کو دیکھتے ہوئے قائد عوام نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے “بیک فٹ پر کھیلتے ہوئے “ ملاں اور ملٹری کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا – جمعے کی چھٹی کی، نائیٹ کلب بند کیئے ، شراب پر پابندی عائد کی ، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود قبضہ گروپ اور ان کی پشت پناہی کرنے والی بیرونی قوتوں سے یہ حقیقت پوشیدہ نہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو سے بڑھ کر ، ان کا کوئی دشمن نہیں اور ان کی بقا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے – چنانچہ پاک فوج کے سربراہ ، اسلامی نظام کے داعی ، مرد مومن مرد حق جنرل محمد ضیاءالحق کے اشارہءابرو پر سپریم کورٹ کی چھتری کےعین نیچےتاریخ کے اس بھیانک جرم کا ارتکاب کیا گیا –
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہء دار پر چڑھا دیا گیا لیکن اس کا نام آج بھی قبضہ گروپ کے لیئےایک ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے – بھٹو دشمنی میں وہ یہاں تک پہنچے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو ختم کرو ، شاہنواز بھٹو کو ختم کرو ، مرتضے بھٹو کو ختم کرو ، بے نظیر بھٹو کو ختم کرو – پیپلز پارٹی کی عوامی قوت کو ختم کرواسے ٹکڑوں میں تقسیم کردو – غلام مصطفے جتوئی سے نیشنل پیپلز پارٹی بنوا دو ، کوثر نیازی سے پروگریسو پیپلز پارٹی بنوا دو حنیف رامے سے ” مساوات پارٹی” اور معراج محمد خان سے “قومی محاذ ِ آزادی” بنوا دو – فوج کے سربراہ اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل سے آئی جے آئی بنوا کر بے نظیر کو دو تہائی اکثریت لینے سے روک دو تاکہ اس کے ہاتھ بندھے رہیں اور وہ آئینی تحفظ کی طاقت حاصل کر کے پیپلز پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کر کے قبضہ گروپ کے شکنجے کو توڑ نہ سکے –
یہ سارے حربے ، نصف صدی کا ظلم و تشدد ، مارشل لاء کے کوڑے اور پھانسی کے پھندے بھی ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے خاندان سے عوام کی محبت کو ختم نہیں کر سکے – آج بھی خوف ہے تو یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے خاندان کے ساتھ عوام کی والہانہ محبت ایک ایسی طاقت بن کر نہ ابھر آئے جو قبضہ گروپ کے لیئے ایک بار پھر خطرے کی علامت بن جائے – اسی لیئے پیپلز پارٹی کی عوامی قوت کو کچل دینے اور اسے غیر موئثر کر نے کی ساری سازشوں پر آج بھی عمل درآمد جاری ہے کہیں دشمن بن کر ، کہیں غیرجانبدار بن کر اورکہیں پیپلز پارٹی کا دوست بن کر –
کیا کوئی اور سیاسی پارٹی بھی ہے جسے ختم کرنے کے لیئے ریاست ، فوج اور ایجنسیاں بیرونی سرپرستی کے ساتھ گزشتہ چالیس سال سے سرگرم عمل ہوں ؟ کیا یہ سب کچھ اس امر کا قطعی ثبوت نہیں کہ پیپلز پارٹی ہی واحد سیاسی طاقت ہے جو قبضہ گروپ کے لیئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے –


آج کے دور میں میڈیا کی آزادی ، سول سوسائٹی کی بیداری اور زمینی حقائق کے پیش نظر مارشل لاء تو شاید ممکن نہیں لیکن قبضہ گروپ نےعوام کی حکمرانی کے خاتمے کے لیئے اس مرتبہ ایک نیا کھیل شروع کیا ہے – کھیل یہ ہے کہ عدلیہ اور پارلیمینٹ کے اختیار اور حدود کار میں ابہام پیدا کرکے پارلیمینٹ کے اختیارا ت کو محدود کیا جائے تا کہ عوام کا حق حکمرانی خود بخود محدود ہو جائے – غور طلب اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اس نئے کھیل کی بنیاد بھی “قصر ملائییت“ کی پہلی اینٹ یعنی قرارداد مقاصد پر ہی رکھی گئی ہے –
قرار داد مقاصد کے پیچھے بھی ملاں کی روح کارفرما تھی جو قائد اعظم کی سیکولر ریاست کے تصورکا انکاری تھا اور آج سپریم کورٹ کو پارلیمینٹ پر بالا دستی دلوانے کے لیئے بھی ملاں کی وہی روح متحرک ہے جو مرد مومن جنرل ضیاءالحق سے ٹرانسمٹ ہوتی ہوئی اکرم شیخ اور قاضی انور کی طرح کے ملاؤں کے اندر سرایت کر چکی ہے – آج کے یہ بیرسٹر ملاں کل کے ناخواندہ ملاں سے بنیادی طرز عمل کے حوالے سے مختلف نہیں – مسلمہ اصولوں سے انحراف ، دور از کار تاویلات ، بودی دلیلیں اور اتھاریٹیٹو لہجہ اس کا غماز ہے –
یہ بحث آئین کی اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے دوران شروع کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمینٹ سے منظور ہونے والی کسی بھی آئینی ترمیم کو مسترد کر سکتی ہے – یہ ایک ایسا مضحکہ خیز تصور ہے جس پر کیا تبصرہ کیا جائے ؟ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیئے !
آئین کو ایک بلند و بالا اور نہایت عظیم الشان عمارت تصور کریں ، کوئی عام عمارت نہیں جسے ہر مستری ، راج ، مزدور یا آرکیٹیکٹ تعمیر کر سکے یا کوئی ادارہ مثلا َ َ فوج ، رینجرز ، پولیس ، سپریم کورٹ وغیرہ اسے تعمیر کرنے کا اختیار رکھتا ہو – دوسرے تمام اداروں کی طرح سپریم کورٹ کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس عمارت کی تعمیر کے لیئے ایک اینٹ بھی رکھ سکے – بلکہ اس ساری کی ساری عمارت کو تعمیر کرنے کا حق اور اختیار صرف اور صرف پارلیمینٹ کا ہے – اور کسی شخص یا ادارے بشمول سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس عمارت کی تعمیر پر انگشت نمائی کر سکے – اس پیراگراف میں جو کچھ عرض کیا گیا کیا وہ درست ہے ؟ اگر درست ہے تو صورت حال کی مضحکہ خیزی کا تصور تو کیجیئے ، کہ وہ اتھارٹی جس نے ایک عمارت تعمیر کی وہ اتھارٹی وقت کی ضرورت اور حقائق کے مطابق اس عمارت میں کوئی توسیع یا ردوبدل نہیں کر سکتی اور اس مقصد کے لیئے اُسے کسی ایسے شخص یا ادارے کا مرہون منت ہونا پڑے جس کا اس عمارت کی تعمیر میں کوئی ہاتھ نہیں بلکہ اسے اس تعمیر سے دور رکھا گیا کہ غلطی سے بھی کسی اینٹ کو ہاتھ نہ لگا دے –


سپریم کورٹ کسی ایسی ترمیم کو مسترد نہیں کر سکتی جسے پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت منظور کر لے –
البتہ سپریم کورٹ ہر قسم کی قانون سازی کا جائزہ لے سکتی ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق یا آئین کے کسی آرٹیکل سے متصادم تو نہیں – اور قانون سازی پر نظرثانی کا اختیار بھی سپریم کورٹ کو پارلیمینٹ نے ہی دیا ہے ، کسی آسمانی صحیفے نے عطا نہیں کیا – اور یاد رکھیئے کہ سپریم کورٹ کو دیئے گئے اس اختیار کا جواز بھی آئین ِ پاکستان ہے ، جس میں پارلیمینٹ اپنی دو تہائی اکثریت سے کسی بھی وقت ترمیم کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !! کوئی باشعور انسان عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہو سکتا ، بات صرف اس آزادی کی حدود کا تعین ہے – کیا اس آزادی کی حدود اتنی وسیع ہیں کہ یہ پارلیمینٹ کی حدود اور حقوق و اختیار پر بھی نظر انداز ہو سکیں ؟ یا اس آزادی کی حدود پارلیمینٹ کی بالا دستی کے تابع ہیں –

کیا عقل سلیم اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ پارلیمینٹ سپریم کورٹ کو یا کسی بھی دوسرے ادارے کو کوئی اختیار اس نیت کے ساتھ دے گی کہ وہ پارلیمینٹ کے لیئے وقتا فوقتا مشکلات پیدا کرتا رہے اور پارلیمینٹ ان مشکلات کا حل تلاش کرنے میں لگی رہے تاآنکہ اس کے لیئے ایک نئی مشکل پیش کر دی جائے – فرض کریں کہ ریلوے کو گاڑیاں چلانے کی آزادی حاصل ہے – ریلوے کے چیئرمین کو آرڈر دیا جاتا ہےکہ ایک ٹرین لاہور سے امرتسر کے لیئے چلا دو اور ریلوے کا چیئرمین کہے کہ یہ ٹرین چلا نا نظریہء پاکستان کے منافی ہے اور ریلوے کو چونکہ ٹرینیں چلا نے کی آزادی ہے اس لیئے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا جا سکتا-

بے شک عدالتوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے سرزد ہونے پر مجرم کو قانون کے مطابق سزا سنائے چاہے یہ مجرم کوئی فرد ہے ، تنظیم ہے ، کوئی ادارہ ہے یا کوئی بڑی سے بڑی حکومتی شخصیت – اعلی عدالتیں بوقت ضرورت آئین کے کسی حصے کی تشریح بھی کر سکتی ہیں اور وہ تشریح کرنے میں آزاد ہیں چاہے ان کی پیش کردہ تشریح کسی فرد ، تنظیم ، ادارے یا بڑی سے بڑی حکومتی شخصیت کے حق میں ہو یا خلاف – لیکن سپریم کورٹ کی اس آزادی کی حدود وہاں جاکر ختم ہو جاتی ہیں جہاں پارلیمینٹ کی خواہش ، منشاء اور رضا کی حدود شروع ہوتی ہیں –


حل طلب مسئلہ یہی ہے کہ کیا یہ تشریح اصل متن اور اصل متن کے تخلیق کرنے والے کی خواہش کے برعکس بھی کی جا سکتی ہے ؟ میرا خیال ہے کہ آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی بارہا یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ اشعار کی تشریح کرنے کا دس نمبر کا سوال آتا ہے ۔ کسی طالبعلم کو دس میں سے صفر ، کسی کو ایک اور کسی کو نو نمبر ملتے ہیں اور شاید کبھی دس میں سے دس نمبر بھی ملے ہوں – آگر کوئی طالبعلم ایک ایسی تشریح پیش کرتا ہے جس کا مفہوم متن یا شاعر کے مافی الضمیر کے منافی ہے تو اسے دس میں سے کتنے نمبر ملنے چاہیئں ؟ بالکل اسی طرح اگر آئین کے کسی حصے کی تشریح آئین بنانے والوں کے مافی الضمیر ، مرضی یا خواہش کے مطابق نہیں کی جاتی تو اسے کوئی نبمر نہیں مل سکتا – ایسی تشریح پر ایک سرخ رنگ کے کراس یا ایک دائرے کے اندر لکھے ہوئے صفر کے ہندسے کے علاوہ شاید کچھ بھی نظر نہ آئے –
سپریم کورٹ کی ہر تشریح ، تاویل اور تعبیر صرف اسی وقت تک قابل قبول ہے جب تک یہ پارلیمینٹ کی مرضی ، رضا یا خواہش کے عین مطابق ہے اور اگر سپریم کورٹ کی تشریح کا کوئی حصہ پارلیمینٹ کی کسی خواہش کے برعکس ہے تو وہ قطعا قابل قبول نہیں ہو سکتا – اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ کا کسی آرٹیکل کی تفہیم یا تشریح پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو فوقیت بہرحال پارلیمینٹ کی رائے کو حاصل ہوگی کیونکہ وہ آئین کی خالق ہے اور اس کے ہر آرٹیکل کی وجہ تسمیہ کو ، اس کے پس منظر میں موجود فلاسفی کو اور ان زمینی حقائق کو جن کی موجودگی نے اس آرٹیکل کو بنانے کی ضرورت پیدا کی ، کسی بھی اور ادارے کی نسبت بہت بہتر سمجھتی ہے – اگر یہ سب کچھ نہیں ہونا تو آئین بنانے کا فریضہ سپریم کورٹ کو کیوں نہیں سونپ دیا جاتا تاکہ وہ آئین بھی بنائے اور ان کے آرٹیکز کو باہم متصادم بھی نہ ہونے دے ؟


مُلاں کے مغالطے
———————–
پارلیمینٹ کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی جمہوری نظام کے مسلمہ اصول بیں – اس حقیقت کو سمجھنے کے لیئے کسی خصوصی ذہانت کی ضرورت نہیں کہ عدلیہ کی آزادی پارلیمینٹ کی بالا دستی کے نیچے ہے – اس سے اوپر ہونا تو کجا ، اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ جو برابر ہوتا ہے وہ بالادست نہیں ہو سکتا اور پارلیمینٹ کی بالا دستی مسلمہ ہے – یہ بالا دست اس لیئے ہے کہ اس یہ عوام کے براہ راست منتخب نمائیندوں پر مشتمل ہے ، جن کے پاس حکمرانی کا حق ہے جو اور کسی کے پاس نہیں اور یہ حق حکمرانی عوام کے پاس خدا کی امانت ہے جو عوام نے ان کے سپرد کی ہے – یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن عوام کے اقتدار کو غصب کرنے والے قبضہ گروپ کے میڈیا انچارج مُلاں کا وطیرہ اور طریقہء واردات بھی اپنی جگہ پر قائم ہے – اور طریقہء واردات یہ ہے کہ اس قسم کے ایشوز پر بات کرتے ہوئے اسلام ، مذہب اورشریعت وغیرہ کی ایسی اصطلاحات استعمال کی جائیں جنکا کوئی واضح اور دو ٹوک مفہوم نہ ہو – بات ایسی کی جائے جو ایک ربڑ کی طرح ہو جسے حسب ضرورت کھینچ تان کر ادھر ادھر فٹ کیا جا سکے اور عوام الناس یہ سمجھیں کہ مُلاں بہتر جانتا ہوگا کیونکہ ہمیں تو قرآن وسنت اور اسلامی تعلیمات کا اتنا علم نہیں ہے – عوام الناس کی اس کمزوری کو بڑھ چڑھ کر استعمال کرنا ملاں کا زبردست ہتھیار ہے – حالانکہ ہمارے مذہب کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس کی تعلیمات اتنی پیچیدہ ہیں ہی نہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیئے کسی اعلی تعلیم کی ضرورت ہو – اس تعلیم کے اول مخاطب تو تھے ہی عرب کے ناخواندہ عوام اور وہ جو اپنے آپ کو حکمت ودانائی کا باپ سمجھتے تھے انہیں یہ توفیق ہی نہ ملی کہ سچے رب کو شناخت کر سکیں –

ذاتی تجربہ کی بنیاد پر عوام الناس کی خدمت میں التماس ہے کہ اپنے اندر اعتماد پیدا کریں اور طوطے کی طرح رٹی رٹائی عبارات اور اصطلاحات سے مرعوب نہ ہوں ، صرف ایک اصول کو پلے باندھ لیں کہ قرآن کریم کے اندر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو لا آف نیچر کے خلاف ہو اور کوئی ایسی حدیث صحیح ہو ہی نہیں سکتی جو کامن سینس کے خلاف ہو –

آئیے اب ان مغالطوں کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کریں جو عوام کے حق حکمرانی کو محدود کرنے اور پارلیمینٹ کی بالا دستی کو ختم کرنے کے لیئے مُلاں کے نمائیندے مختلف فورمز پر پیش کر رہے ہیں –


مغالطہ نمبر ایک:
پارلیمینٹ نے جب ایک دفعہ سپریم کورٹ کو آئینی ترمیمات کا جائزہ لینے کا اختیار دے دیا تو اب پارلیمینٹ اسے واپس نہیں لے سکتی کیونکہ ایک ماں بچے کو پیدا تو کر سکتی ہے لیکن اسے قتل نہیں کر سکتی –

ماں بچے کو قتل تو نہیں کرسکتی لیکن اسے بے راہ رو اور نافرمان ہوتے بھی نہیں دیکھ سکتی – راہ راست پر رکھنا ماں کا حق ہی نہیں ذمہ داری بھی ہے اور اس ذمہ داری کو نباہتے ہوئے اسے سرزنش کا حق بھی حاصل ہے اور قرآن کریم بچے کو حکم دیتا ہے کہ تم نے اُف تک نہیں کرتی اور اگر جنت درکار ہے تو تمہیں ماں کے قدموں میں جھکنا پڑے گا –

مغالطہ نمبر دو:
اگر پارلیمینٹ آئین میں ایسی ترمیم کر دے کہ پاکستان کو ہندوستان میں شامل کر دیا جائے تو کیا سپریم کورٹ اس پر خا موش بیٹھی رہے ؟

اگر سپریم کورٹ کسی پٹیشن کے نتیجے میں یا از خود نوٹس لینے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مسائل کا جائزہ لے اور اس کا سترہ رکنی فل کورٹ بینچ متفقہ فیصلہ کرے کہ پاکستانی قیادت اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی چنانچہ اسے ہندوستان میں شامل ہو جانا چاہیئے – تو کیا ایسے فیصلے پر عوام اور پارلیمینٹ خاموش تماشائی بنے رہیں ؟ آپ اس مغالطے کو پیش کرنے والے کی ذہنیت پر غور کریں – اس مضحکہ خیز مفروضے کے پیچھے پارلیمنٹ کی کمتری اور تضحیک کا احساس موجود ہے کہ گویا پارلیمینٹ سے ایسے بے سرو پا فیصلے متوقع ہیں – امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمینٹ نے تو نہیں البتہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایسے بے سروپا فیصلے ضرور کیئے ہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے والے اس ادارے نے بھٹو کے ساتھ انصاف تو کیا کرنا تھا ، صریح ظلم کرتے ہوئے فوجی آمر کی شہ پر اسے تختہء دار پر چڑھا دیا – اکرم شیخ اور قاضی انور تو مفروضوں کی بات کر رہے تھے کہ اگر پارلیمینٹ ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر دے ، اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا – ان مفروضوں سے ہٹ کر ایک حقیقت معرض وجود میں آچکی ہے اور وہ یہ کہ ایک چیف جسٹس فیصلہ دے چکے ہیں کہ آزاد کشمیر پاکستان سے الگ ایک ملک ہے –

مغالطہ نمبر تین:
پارلیمینٹ قانون سازی تو کر سکتی لیکن آئین میں ترمیم صرف آئین ساز اسمبلی ہی کر سکتی ہے –

جب کسی ملک کا آئین نہیں ہوتا تو عوام کے منتخب نمائیندوں پر مشتمل جو پارلیمینٹ آئین بناتی ہے وہ آئین ساز اسمبلی کہلاتی ہے – آئین بن جانے کے بعد جو پارلیمینٹ معرض وجود میں آتی ہے وہ قانون ساز اسمبلی کہلاتی ہے – آئین ساز اسمبلی چونکہ یہ شعور رکھتی ہے کہ وقت کے ساتھ زمینی حقائق تبدیل ہونے کی صورت میں آئین کے اندر کسی ترمیم کی ضرورت پڑ سکتی ہے چنانچہ وہ آئین کے اندر اس کا طریقہء کار بھی بیان کر دیتی ہے – پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ پارلیمینٹ اپنی سادہ اکثریت سے قانون سازی کر سکتی ہے اور دو تہائی اکثریت سے جب چاہے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے-

مغالطہ نمبر چار:
پارلیمینٹ آئین میں ترمیم تو کر سکتی ہے لیکن اس کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں چھیڑ سکتی – اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں اسلام کے بنیادی اصول ، پارلیمانی طرز حکومت ، نظریہء پاکستان اور عدلیہ کی آزادی شامل ہیں-

آئین میں اس کے بنیادی ڈھانچے (بیسک سٹرکچر) کا کسی بھی آرٹیکل میں کوئی ذکر ازکار تک نہیں – یہ ایک سفید جھوٹ ہے- ملاں نے نہ جانے کس ضابطے کے تحت یہ جھوٹ بولنا جائز سمجھا-
اب ایک منٹ کے لیئے فرض کریں کہ آئین میں کوئی بیسک سٹرکچر موجود ہے – سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈھانچے کو بنایا کس نے ہے ؟ کیا یہ آسمان سے اترا ہوا ازلی ابدی ڈھانچہ ہے جس کے کسی نقطے میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی؟ کیا یہ ڈھانچہ انسانوں کا بنایا ہو ا ہے ؟ ایسا ہے تو اسے تبدیل کیوں نہیں کیا جا سکتا ؟ عوام کے منتخب نمائیندے جو خدا کا دیا ہوا حق حکمرانی رکھتے ہیں آئین میں تبدیلیوں کی طرح اپنی دو تہائی اکثریت سے اس نام نہاد بنیادی ڈھانچے کو تبدیل بھی کر سکتے ہیں اور ختم بھی کر سکتے ہیں-
اٹھارویں ترمیم کے خلاف پہلی رٹ پٹیشن پیش کرنے والے پہلے مرد مجاہد اکرم شیخ ایک ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ آئین کے بنیادی اصول قرارداد مقاصد میں طے کر دئیے گئے تھے- قرارداد مقاصد ہی تو ان تمام برائیوں کی جڑ ہے جنہیں آئین میں داخل کر کے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا – قائد اعظم کی سیکولر سٹیٹ کا تصور ختم کرنے کے لیئے اسے انیس سو انچاس میں اسمبلی سے پاس کرایا گیا – عرب کے اونٹ والی حکایت کے مطابق گویا اونٹ نے سردی سے بچنے کے لیئے اپنا منہ خیمے کے اندر ڈال دیا – انیس سو باون میں چوہدری محمد علی نے اسے آئین کا دیباچہ بنا دیا – اب اونٹ گردن تک خیمے کے اندر داخل ہو گیا – مرد مومن جنرل ضیاءالحق نے اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنا دیا – اب پورے کا پورا اونٹ خیمے میں داخل ہوگیا ، خیمے کی طنابیں اکھڑ گئیں ،اور خیمے کا مالک سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پڑا رہ گیا-
بعینہ قراداد پاکستان کی کہانی ہے قائد اعظم اور ان کی قیادت میں بننے والے ملک کا دشمن مُلاں قائد اعظم کی زندگی میں تو دم سادھے پڑا رہا لیکن آپ کی وفات کے بعد قرار داد مقاصد پاس کرائی گئی ، پھر اسے آئین کا دیباچہ بنوایا گیا اور آخر کار آئین کا حصہ بنوا دیا – اب اونٹ اندر اور اس کا مالک باہر ہے – مُلاں نظریہء پاکستان کا ٹھیکیدار ہے اور قائد اعظم کا پیرو کار بے راہرو ، اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور کافروملحد قرار پایا ہے –

مغالطہ نمبر پانچ:
پارلیمینٹ میں بیٹھے کچھ کمزور لوگوں کی غلطیوں اور جرائم کو مثال بنا کر مُلاں شور مچاتا ہے کہ جعلی ڈگریوں والے لوگ اب سپریم کورٹ کو یہ پڑھائیں گے کہ آئین کیا ہوتا ہے؟

یہ مغالطہ بھی دھوکہ دہی پر مبنی ہے – کیا پارلیمینٹ میں موجود ہر شخص کے پاس جعلی ڈگری ہے ؟ اب عدلیہ پر نگاہ ڈالیں جسٹس قیوم اور جسٹس راشد کو کس جرم کی پاداش میں مستعفی ہونا پڑا ؟ کیا مارشل لاؤں کو آئینی تحفظ دینے والے ججوں نے آئین کی پاسداری کا لیا ہوا حلف نہیں توڑا ؟ بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کس جرم کے زمرے میں آتا ہے ؟ تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ساری جوڈیشری کرپٹ ہے ؟ اب دیکھیئے افواج پاکستان کے کچھ محب وطن جرنیلوں کا کردار – کیا یہ بغاوت کے مرتکب نہیں ہوئے؟ راولپنڈی سازش کیس کیا ہے ؟ اٹک سازش کیس کیا ہے ؟ جنرل ظہیر اور بریگیڈیئر مستنصر باللہ کیا کر رہے تھے ؟ توکیا ایوب ، یحیی، ضیاء ، مشرف اور بعض دوسروں کی بجائے ساری فوج کومورد الزام قرار دے دیا جائے ؟
باقی رہی بیوروکریسی، تو یہ پہلے سے ہی ایک کھلا راز ہے – بالکل اسی طرح پالیمینٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں ہیں – اسی قوم کے افراد ہیں – جہاں جہاں خرابیاں آجائیں انہیں دور کرنے کا جو نظام موجود ہے ، اسے مزید بہتر اور شفاف بنایا جا سکتا ہے لیکن جیسا کہ دیگر اداروں میں موجود خراب مثالوں کی بنیاد پر سارے کے سارے ادارے کو بے وقعت نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح پارلیمینٹ ، اپنے اندر موجود بعض بشری کمزوریوں کے باوجود ایک بالا دست ادارہ ہے کیونکہ اسے ایک خصوصی اور امتیازی مقام حاصل ہے اور وہ ہے زمین پر خدا تعالی کے حق حکمرانی کا اختیار ، جو کسی فرد واحد ، کسی اورادارے کو حاصل نہیں-
مغالطہ نمبر چھ :
اس دور کے ایک “بیرسٹر مُلاں” اکرم شیخ نے اراکین ِ پارلیمینٹ پر طعنہ زنی کرت ہوئے سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کے خلاف “دلا ئل” (فی الحقیقت مغالطے) پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
(١) – اب جج بننے کے لیئے ان پڑھ رکن پارلیمینٹ کی منظوری کا سامنا کرنا ہوگا – (2 جون)
(٢) – اب نان کوالیفائیڈ افراد جج مقرر کریں گے – ( 4 جون)

اللہ بہتر جانتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان پارلیمینٹ اور اراکین پارلیمینٹ کے خلاف ایسے
توہین آمیز ریمارکس پر خاموش کیوں رہتے ہیں جو کہ براہ راست اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین کے مترادف ہے – خدا تعالی اکرم شیخ صاحب کو عمر ِ خضر عطا فرمائے – نزول ِ مسیح علیہ السلام کا واقعہ اگر بیرسٹر اکرم شیخ کی زندگی میں وقوع پذیر ہوگیا تو آپ نہ جانے حضرت عیسی علیہ السلام سے کس یونیورسٹی کی ڈگری کا مطالبہ کر دیں – (نعوذ باللہ من ذالک)…………………..

مرد حق جنرل ضیاء نے سپریم کورٹ سے ایسے ڈیل کیا تھا جیسے ایک مومن دوسرے مومن سے کرتا ہے – سپریم کورٹ جب ضیاء کے غاصبانہ اقدامات کو آئینی جواز فراہم کر رہی تھی تو اس مجاہد نے درخواست کی کہ مجھے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا جائے – سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آئین میں ترمیم کا حق تو تمہیں دیتے ہیں لیکن آئین میں دی ہوئی اجازت کے مطابق ان ترامیم پر سپریم کورٹ کا جوڈیشل ریویو کا حق برقرار رہے گا – اسلام کے اس سپاہی نے پہلی ترمیم یہ کی کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے مطابق آئین میں ترمیم کا حق رکھتا ہوں اس لیئے میں یہ ترمیم کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو میری کی ہوئی ترامیم پر ریویو کا کوئی حق نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اگر آپ نے ان طویل معروضات کو توجہ کے لائق سمجھا ہے تو مجھے امید ہے کہ آپ اس امر سے اتفاق کریں گے کہ پاکستان میں مُلاں کریسی ، مذہبی شدت پسندی ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی پسندی کی بنیاد قرار داد مقاصد کی صورت میں رکھ دی گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی فوقیت کے حق میں بولنے والے اہم ترین وکیل اکرم شیخ آج بھی ڈنکے کی چوٹ پر ، قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ، کوئی ندامت محسوس کیئے بغیر بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ سفید جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی ہے – آپ یہیں پر نہیں رکتے بلکہ جھوٹ کے اس نہلے پر غلط بیانی کا دہلا پھینکتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئین کا یہ بنیادی ڈھانچہ اور آئین کے سیلیئینٹ فیچرز (خدوخال) قرار داد مقاصد میں موجود ہیں –
انا للہ و انا الیہ راجعون-
قرار داد مقاصد تو فاسق اعظم جنرل ضیاءالحق نے اپنے سیاہ دور میں کہیں جاکر آئین میں شامل کی – آپ انیس سو تہتر کے متفقہ آئین کے سیلیئینٹ فیچرز اس دستاویز میں بتا رہے ہیں جس کی حیثت اس وقت تک محض آئین کے دیباچے کی تھی – آپ جھوٹ ، کذب اور دروغ گوئی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ قرارداد مقاصد کے اندر بھی نہ تو سیلیئینٹ فیچرز کے الفاظ ہیں نہ ہی آئین کے بنیادی ڈھانچے یا بیسک سٹرکچر کے
لفظ ہیں- لطیفہ یہ ہے کہ قرارداد مقاصد جس کا اپنا وجود مشکوک ہے ، پہلے تو حیلوں بہانوں سے اس کو آئین میں گھسیڑا گیا ، پھر اسے قائد اعظم کے ارشادات پر فوقیت دیتے ہوئے اس حد تک تقدس کا مقام دے دیا گیا کہ گویاآئین پاکستان کے سیلیئنٹ فیچرز بھی اسی دستاویز میں موجود ہیں-
یہ تو ایسی ہی منطق ہے جیسے کسی آدمی نے حلوائی سے ایک کلو برفی دینے کے لیئے کہا – برفی کا پیکٹ وصول کر لینے کے بعد اس نے درخواست کی کہ برفی واپس لے کر لڈو دے دو – حلوائی نے ایک کلو لڈو پیک کرکے موصوف کے حوالے کر دیئے – جناب نے لڈوؤں کا ڈبہ تھاما اور بغیر پیسے دئیے دکان سے باہر چل پڑے – حلوائی نے آواز دے کر کہا کہ بھائی ہیسے تو دیتے جاؤ آنجناب نے پلٹ کر کہا ، کس چیز کے پیسے؟ دکاندار نے کہا ، لڈوؤں کے – آپ نے فرمایا کہ وہ تو میں نے برفی کے عوض لیئے ہیں – حلوائی نے کہا کہ اچھا پھر برفی کے پیسے دے دو – موصوف اکرم شیخ جیسی صلاحییتیں رکھنے والے مومن تھے ، کہنے لگے ، وہ تو میں نے واپس کردی تھی – تو جناب پہلے آپ قرار داد مقاصد کو آئین میں شامل ہونے کی بنا پر معتبر قرار دیتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ معتبر وہ آئین ہو گا جو اس قرار داد میں دیئے گئے سیلیئینٹ فیچرز کے مطابق ہو – میں تو دست بستہ یہی گزارش کر سکتا ہوں کہ خدا را قرار داد مقاصد کو قرارداد مذموم مقاصد نہ بنائیے –

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
  2. Khalid Wasti
    -
  3. Ahsan Shah
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.